توہین عدالت کیس - رجسٹرار سپریم کورٹ کو طلب کرنیوالے جج کو شوکاز نوٹس

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے کنٹرول آف نارکوٹکس سبسٹینس کورٹ کے جج عظیم آفریدی کے خلاف سپریم کورٹ کے رجسٹرار ڈاکٹر فقیر حسین کو ایک کیس میں نوٹس جاری کرنے پر توہین عدالت کے کیس میں جج عظیم آفریدی کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنا جواب تحریری طور پر سات دن میں عدالت میں جمع کروائیں جبکہ مقدمہ کی سماعت 10 اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی۔ جسٹس خلجی عارف حسین کی سربراہی میں جسٹس اعجاز احمد چودھری اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل تین رکنی بنچ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی تو پشاور کے جج عظیم آفریدی اور رجسٹرار ریاض علی خان پیش ہوئے۔ جج عظیم آفریدی نے عدالت میں اپنا موقف بیان کرنے کی کوشش کی تو جسٹس اعجاز احمد چودھری نے کہا کہ آپ کو بولنے کی اجازت نہیں، آپ اپنا جواب تحریری طور پر عدالت میں جمع کروائیں۔ اس پر عظیم آفریدی نے کہا کہ عدالت میں ان کی بے عزتی کی جا رہی ہے، اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ کی وجہ سے سپریم کورٹ کی بے عزتی ہو رہی ہے۔
عظیم آفریدی نے کہا کہ عدالت وزارت قانون کو ہدایت دے کہ وہ ان کو سرکاری وکیل فراہم کرے، ان کی تنخواہ دو ماہ سے بند ہے، وہ وکیل نہیں کر سکتے، وہ جج ہیں معاملے میں سرکاری وکیل انہیں فراہم کرنا ان کا حق ہے۔ اس پر جسٹس عظمت نے کہا کہ توہین عدالت کیس میں انہیں سرکاری وکیل نہیں دیا جا سکتا، انہیں ذاتی حیثیت میں وکیل کرنا ہو گا۔ اس پر عظیم آفریدی نے کہا کہ وہ قصوروار ہیں تو عدالت انہیں سزا دے، وہ سزا بھگتنے کیلئے تیار ہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ آپ کی جوڈیشری کے معاملات میں شہرت اچھی نہیں، آپ کی جانب سے جاری نوٹس میں سپریم جوڈیشل کمیشن اور رجسٹرار سپریم کورٹ کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کی گئی۔ واضح رہے جج عظیم آفریدی نے 27 ستمبر کو رجسٹرار سپریم کورٹ ڈاکٹر فقیر حسین کو سیفکو نامی کمپنی سے مبینہ تعلق کا شبہ ہونے کی وجہ سے نوٹس جاری کرتے ہوئے تین اکتوبر کو پشاور میں اپنی عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا تاہم معاملہ سامنے آنے پر فاضل چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے اور کنٹرول آف نارکوٹکس سبسٹینس کورٹ کے رجسٹرار کو گزشتہ روز عدالت میں طلب کیا۔ یہ بھی یاد رہے کہ عظیم آفریدی کو کچھ عرصہ قبل ایک سال کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایڈیشنل جج مقرر کیا گیا تھا لیکن جوڈیشل کمیشن نے اپنے اجلاس میں انہیں مستقل نہیں کیا تھا۔ ان کی جانب سے منشیات کے ملزمان کی دھڑادھڑ ضمانتیں دینے سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے فاضل چیف جسٹس دوست محمد نے چند روز قبل ریمارکس دیتے ہوئے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔

Post Your Comments