بجلی کے نرخوں میں اضافے پر سپریم کورٹ نے حکومتی جواب طلب کرلیا

 سپریم کورٹ آف پاکستان میں لوڈ شیڈنگ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اُنہیں بتایا گیا ہے کہ تمام کمپنیوں کو نرخوں کے تعین کے لیے نیپرا کے پاس جانا پڑتا ہے۔ جس پر جسٹس جواد کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیپرا کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کمپنیوں نے اجارہ داری بنا رکھی ہے۔ اٹارنی جنرل نے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ نیپرا ایک خودمختار ادارہ ہے اور ہر کمپنی کے نرخوں کا تعین الگ سے کیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا اگر نیپرا کے کہنے پر عمل کریں تو 14 روپے فی یونٹ لینا چاہئیے، لیکن حکومت کم نرخ لے رہی ہے، جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ کئی جگہوں پر 14 روپے سے بھی زیادہ فی یونٹ لیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رُکنی بینچ نے لوڈشیڈنگ ازخود نوٹس کیس کی سماعت آج بدھ کے روز بھی کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 30 ستمبر کا نوٹیفکیشن نیپرا نے جاری نہیں کیا اور بظاہر نیپرا کے علاوہ کوئی اس قسم کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کرسکتا۔ نیپرا حکام نے عدالت میں اس نوٹیفکیشن سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے اور اب اس نوٹیفکیشن کی کیا قانونی حیثیت رہ جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چیئرمین نیپرا کے بیان سے تو لگتا ہے انہوں نے قیمتوں میں کمی کی سفارش کی تھی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نیپرا نے شیڈول ون کا نوٹیفکیشن جاری کیا جس کے تحت قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے پاس اس عمل سے متعلق کچھ بھی موجود نہیں جس کے تحت نیپرا نے اس بارے میں کوئی فیصلہ کیا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ چئیرمین نیپرا کے مطابق بجلی کے نرخوں میں اضافے کی درخواستوں کی باقاعدہ سماعت ہوئی ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہمارے پاس نیپرا کا وہ فیصلہ موجود ہے جس میں نوٹیفکیشن جاری کرنے کا کہا گیا ہے۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے عدالت کو بتایا کہ پیسکو میں 101 فیڈر ایسے ہیں جن میں صرف 3 فیصد لوگ بل دیتے ہیں اور ان فیڈروں پر 97 سے 80 فیصد لوگ نادہندہ ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 148 کے تحت وفاقی حکومت کو اس معاملے سے نمٹنے کے لیے صوبائی حکومت کی مدد کرنی چاہئیے ہم نے اسی لیے کہا تھا صوبوں کو تھوک میں بجلی دے کر ان سے ریکوری کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت فرنٹ لائن پر آئی تو کراچی میں حالات بہتری کی طرف آ رہے ہیں۔ عدالت میں آج کی کارروائی کے بعد کیس کی سماعت جمعہ تک ملتوی کردی گئی۔ اس سے پہلے بجلی کی قیمتوں میں تیزی سے کیا جانے والا اضافہ کل بروز منگل کو سپریم کورٹ کی جانب سے لوڈشیڈنگ پر لیے گئے ازخود نوٹس کیس کی بحث بن گیا۔ عدالت نے نشاندہی کی کہ اگر یہ ثابت ہوا کہ گھریلو صارفین کے لیے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ غیر قانونی ہے تو اس پر حکمِ امتناعی جاری کریں گے۔ ایک قانونی ماہر کا کہنا ہے کہ حکمِ امتناعی کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ واپس لیا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رُکنی بینچ نے اس معاملے کا جائزہ لینے کے لیے اپنی خواہش کا اظہار کیا تاکہ حکومت کو یہ اختیار ہو کہ وہ ٹیرف میں اضافے کے بارے میں مطلع کرے۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کے 1997ء کے قانون کے سیکشن نمبر 31 (4) کے مطابق حکومت صرف نیپرا کے تعین کے بعد ہی نوٹیفیکیشن جاری کرسکتی ہے۔ عدالت کی ہدایت پر حکومت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عتیق شاہ کے ذریعے دو نوٹیفیکیشن عدالت میں پیش کیے جن میں پہلا 5 اگست کو کمرشل اور صنعتی صارفین کے ٹیرف میں اضافے کے لیے جاری کیا گیا تھا، جبکہ دوسرا جو رواں ہفتے پیر کو گھریلو صارفین کے لیے جاری کیا گیا۔ عدالت کے خیال میں دوسرا نوٹیفیکیشن نیپرا کی جانب سے قیمتوں کے تعین کے بغیر جاری کیا گیا اور یہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح سے قیمتوں میں اضافہ نہیں کرنا چاہیے تھا. پاکستان پاور کمپنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر ضرغام اسحاق خان نے وضاحت کی کہ اگرچہ نوٹیفیکیشن کو گزشتہ سال ستمبر میں جاری کیا جانا تھا 30 ستمبر کا نوٹیفیکشن دوسرا مرحلہ تھا جو تاخیر سے جاری کیا گیا جس میں قیمتوں کا تعین نیپرا کی جانب سے اپریل میں کیا گیا تھا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ٹیرف میں کیا جانے والا اضافہ اب بھی نیپرا کی تجویز سے کم ہے۔ اس موقع پر عدالت نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے اپنی نااہلی کا بوجھ عام صارفین خاص طور پر اس وقت منتقل کیا جب اس کو مختلف صارفین سے 441 ارب روپے کی بھاری رقم وصول کرنا ہے، جن میں پبلک کے علاوہ نجی بھی شامل ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صارفین پر بوجھ منتقل کرنے کے بجائے آپ واجب الادا بقایاجات وصول کرنا کیوں نہیں شروع کرتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدالت اس سلسلے میں حکم جاری کرنے کے لیے تیار ہے۔ عدالت نے افسوس کا اظہار کیا کہ عالمی مارکیٹوں میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہیں لیکن حکومت نے ان کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے جو صارفین پر منتقل کیا جارہا ہے۔ نیپرا کے چیئرمین خواجہ نعیم کا کہنا تھا کہ اس سال بجلی کی پیداوار کے لیے 1.25 ٹریلن روپے کا ریونیو درکار تھا، لیکن روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ افراطِ زر کی شرح، 40 ارب روپے کےلائن کے نقصانات اور چوری، 84 ارب روپے کا ٹیرف میں فرق، 84 ارب روپے ٹیرف کی ناقابلِ وصولی اور 45 ارب روپے بجلی کی مصنوعات کی تاخیر سے ادائیگیوں جیسے گردشی قرضوں میں واضح طور پر 437 ارب روپے کی کمی ہوئی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ صنعت پیسے کے بہاؤ سے چلتی ہے اور اس اہم شے کی کمی سے لوڈشیڈنگ اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ خواجہ نعیم نے کہا کہ اگر گیس کے اخراجات تعین کر کے اضافے کیے جائیں تو پاور پروڈکشن کی لاگت 40 فیصد تک براہ راست کمی ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قیمتوں میں کمی سے چوری کے واقعات میں کمی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ گردشی قرضوں کی بنیادی وجہ بقایا جات کی عدم وصولی ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ حکومت وسیع پیمانے پر نگرانی کا ایک منصوبہ بنارہی ہے جس میں کوئی بھی گڑبڑ نہیں کی جاسکتی ۔ اس موقع پر حکومت عدالت نے حکومت کی حالیہ توانائی پالیسی پر مایوسی کا اظہار کیا۔ عدالتی بینچ میں شامل جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ پالیسی ایک اچھا پیپر ہوسکتی لیکن اصل بات اس پر عمل ہونا ہے۔ عدالت میں صوبوں اور مرکز کے درمیان تنازعات کے حل سے متعلق درخواستیں بھر جائیں گی۔

Post Your Comments